اچھا مجھ میں ہزار ایسی کوتاہیاں ہیں جنہیں آج کے میرے مہربان ہوں یا میرے عزیز یا حاکم۔۔وہ اسے نفسیاتی مسائل سے جوڑتے ہیں اور یقینی طور پر وہ درست بھی ہیں۔۔اور ان سے پہلے جب میں سرے سے کچھ تھا ہی نہی وہ اسے لاف زنی اور افسانوی سمجھ کے مجھے نظر انداز کرتے تھے۔۔ان میں بہتیری عادتوں پر قابو بھی پایا اور کچھ متروک بھی ہو گئیں۔۔یہ تھوڑی سی تمہید میں نے اپنے پڑھنے والے کے لئے اس لیے باندھی کہ اگر کوئی یہ لمبی بورنگ تحریر پڑھ لے تو اسے وہ سمت یا مرض سمجھ آئے۔میں زیادہ پڑھا لکھا تو ہوں نہی۔۔مگر ایک نفسیاتی مرض ہے ماضی میں زندہ رہنا۔۔چلئے اس بحث سے پہلو تہی کرتے ہیں اور آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں۔۔جس کے سارے کردار اسے بھول چکے ہونگے۔۔مگر مرض ہے نا مجھے یاد آتا رہتا ہے اور اب تک بہت ساروں کو سنا بھی چکا ہوں
میری پیدائش چھ فروری انیس سو بہتر لگھی ہوئی ہے۔اور غالب امکان ہے کہ انیس سو نوے کی بات ہے ہمارے گاؤں میں ایک میڈیکل سٹور سیل ہو گیا۔۔انہوں نے مجھے اسے کھلوانے کا کہا میں نے اپنی پوری کوشش کی جو لازمی طور پر ایک کمزور نوجوان کی ادنئ کاوش ہو گی۔مگر حسب عادت یا مرض میں کسی بھی معاملے میں اپنا پورا زور لگانے کا شروع سے عادی ہوں۔۔میں وہ سٹور نہ کھلوا سکا۔۔مگر مایوس نہ ہوا۔۔میرے عزیز چوہدری منور تاجیکا اس وقت ممبر ضلع کونسل تھے انہیں کہا کہ آپ کے چوہدری اقبال گجر مرحوم سے ذاتی تعلق ہیں ان کے فرزند وزیر صحت پنجاب ہیں میرے ساتھ اسلام آباد چلیں ان سے میرا کام کروا دیں۔۔مختصر کرتا ہوں ہم اسلام آباد گئے ایک شاندار اور نفیس انسان سے ملے۔۔میں نے اس طرح کی رعب دار شخصیت اس سے پہلے نہ کبھی دیکھ رکھی تھی اور نہ ملا تھا۔۔(بعد میں انہیں کئی بار دیکھا سنا اور مستفیذ بھی ہوا)۔ہم انہیں ملے میں نے ڈرتے ڈرتے زرا دور سے ہاتھ بڑھا کے مصافحہ کیا۔۔انہوں نے میرا ہاتھ زور سے پکڑکے مجھے اپنے قریب کرکے میری کان میں کہا کہ بزرگوں سے ایسے سلام نہی لیتے ۔میرے اوسان خطا ہو گئے اگرچہ انکی یہ بات کسی اور نے نہ سنی۔۔میں ایک دیہاتی بچہ تھا۔۔سارے سفر میں گنگ اور پریشان رہا کہ کیا غلطی کی ہے۔نہ کسی کو بتاؤں اور نہ سمجھ آئے۔۔مولا ان کے درجات بلند کرے۔کام بھی کر دیا۔۔مگر میں سارے رستے پریشان رہا۔۔رات گئے گھر پہنچا۔۔میرے سارے بزرگ میری تربیت کرتے تھے۔۔گھر آیاتو خدا بخشے میری بڑی پھوپھو آئی ہوئی تھیں میں نے سلام کیا۔۔مجھ سے وہ باتیں کرتے کرتے کہنے لگیں بچے جب کسی بزرگ شخصیت سے ملو اپنے دونوں ہاتھوں سے سلام لینا ہے اور جھک کر ملنا ہے۔۔میں نے ہنس کر کہا کہ آپ نے دیر کردی پھوپھی یہ بات بتانے میں اور یوں مجھ پر یہ عقدہ کھلا۔۔بعد میں چوہدری صاحب مجھے ایک مرتبہ رفیق گل صاحب ہمارے ڈی سی تھے ان کے پاس ملے تو انہوں نے چوہدری صاحب کو کہا کہ تصور کو آپ جانتے ہیں بڑامؤدب بچہ ہے۔۔میں نے یہ بات انہیں سنائی اور چوہدری صاحب نے بڑی شفقت کی۔۔ فرمایا کہ گوندل تو ایسی باتیں یاد نہی رکھتے۔دشمنی پر اتر آتے ہیں۔۔آج انکی تصویر سوشل میڈیا پر نظر آئی۔تو سوچا اپنا مرض بیان کر دیتا ہوں ہو سکتا ہے کوئی لقمان دوا تجویز کردے۔۔
