بے اسلوب
اردو میری مادری زبان نہیں ہے میں پنجابی ہوں اور میری مادری زبان ہزاروں سال پرانی زبان پنجابی ہے ۔ جس کی وسعت قدیم زبانوں عربی فارسی سے کم نا ہے ۔ مجھے دکھ ہے کہ میں یہ تحریر اردو میں لکھ رہا ہوں حالانکہ میری مادری زبان کی روانی اس سے کئی گناہ زیادہ ہے میں چاہتا ہوں کہ اس دکھ سے میری آنے والی نسل نہ گزرے ۔میں اردو میں لکھ رہا ہوں کیونکہ مجھے پنجابی پڑھائی نہیں گئیں ۔اردو کی جڑیں میری زمین میں نہیں ہیں اسی لیے میں بے اسلوب ہوں
کوئی بھی زبان بُری نہیں ہوتی زبانیں ابلاغ کا ذریعہ ہیں ۔میں کوئی ماہر لسانیات نہیں کہ زبانوں کا تقابل پیش کر سکوں
پاکستان میں جو ظلم مقامی زبانوں پر اک ایسی زبان جس کا تعلق موجودہ پاکستان کی چار بڑی قوموں پنجابی ،سندھی،پشتون اور بلوچ قوم کے ساتھ نہیں اُس کو زبردستی سرکاری سرپرستی میں الہامی زبان کے طور پر پیش کیا گیا اور مقامی زبانوں کا ہمیشہ سے استحصال کیا گیا ہے
یہ استحصال سب سے زیادہ محب وطن پاکستان کی تحریک چلانے والے بنگالیوں کو ہم سے دور لے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو کو بنگالیوں ،پنجابیوں،سندھیوں،پختونوں اور بلوچوں کی اپنی زبانیں ہوتے ہوئے قومی زبان بنانے پر احتجاج کرنے والے طالب علموں کو شہید کیا گیا میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس ظلم پر پنجابی ،سندھی ،پختون اور بلوچ کیسے خاموش رہے
مادری زبان کی افادیت کی بات کریں تو مادری زبان میں تعلیم نہ صرف بچوں کی سماجی مہارتوں کو بہتر کرتی ہے۔ بلکہ تعلیمی کارکردگی میں بہتری اور اسکول میں کامیابی کی کلید سمجھی جاتی ہے۔ اب اگر پنجابی بچہ اپنے گھر لفظ کیڑی سیکھتا ہے تو سکول اسے چیونٹی سیکھا رہا ہے ایک ہی وقت میں وہ اردو کے قاعدے میں چیونٹی پڑھ رہا ہے اور انگریزی کے قاعدے میں Ant پڑھ رہا ہے ۔اب آپ ہی فیصلہ کریں بچے کو کیڑی سے سیدھا Ant پڑھانا آسان ہے یا پہلے کیڑی پھر چیونٹی اور پھر Ant
اردو نا تو اسلامی زبان ہے اور ہی سائنسی زبان ہے اور نا ہی عالمی زبان ہے پھر یہ ریاست ہمیں مقامی زبانوں کے بجائے اردو پڑھنے پر مجبور کیوں کر رہی ہے
پنجاب کے دانشوروں کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوں مادری زبان صرف زبان نہیں ہوتی اس میں کسی بھی قوم کی تہذیب تاریخ اور وقار پہناں ہوتا ہے پنجابی زبان کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ زبان پنجاب کی بقا کی علامت ہے پنجاب دشمن کبھی لسانیت کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر پنجاب کو مسلسل توڑ رہے ہیں اب اگر دوبارہ پنجاب ٹوٹا تو پنجاب کا وجود ختم ہو جایے گا
آخر میں مقتدرہ سے گزارش کرتا ہوں کہ پنجاب کے سکولوں کو پنجابی ہو بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے تاکہ پنجاب کا کوئی بیٹا اپنی زبان میں لکھنے سے قاصر نہ ہو
ندیم اکرم وِرک