1974 کی بات ہے، کلاسیکی موسیقی کے استاد امانت علی خان نے ابن انشاء کی مشہور زمانہ غزل” انشاء جی ٰاٹھو اب کوچ کرو ” دل کی گہرائیوں سے
کچھ اس طرح گائی کہ ایک جہان کو اداس کردیا۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی وہ واقعی اس دنیا سےکوچ کرگئے ۔
چند ہی ہفتوں بعد ان کے اٹھارہ سال بیٹے اسد امانت علی نے اپنے چچا استاد فتح علی خان کی موجودگی میں ٹیلیویژن پر یہی غزل سنائی تو نہ صرف چچا بلکہ حاضرین محفل بھی پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اور جس نے بھی ٹی وی پر نوجوان اسد کو سنا اپنے آنسو نہ روک سکا ۔ بعد ازاں تو وہ موسیقی کی دنیا پر چھا گیا اور دنیا والوں کو اپنے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ایک کے بعد ایک ہٹ غزل ، کلاسیکل گیت ، نظم اور لوک گیتوں سے اس نے موسیقی سے محبت کرنے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ اور جب اس نے بابا غلام فرید کے کلام پر مشتمل اپنا مشہور پنجابی گیت ” عمراں لنگیاں پباں بھار” گایا تو لوگوں کو اتنا خوبصورت کلام سن کر حیرت سے سکتہ ہوگیا۔ وہ جب بھی یہ کلام گاتا تو وقت کی قید سے آزاد ہو جاتا اور جب تک اس کا دل چاہتا گاتا ہی رہتا تھا ۔ کسی میں اس کو روکنے کا حوصلہ بھی نہ ہوتا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں اس کی کیسٹس بکتیں اور اب بھی لاکھوں مداح یو ٹیوب پر اس کا یہ کلام سنتے ہیں۔
پھر دنیا والوں نے دیکھا کہ 2007 میں ایک دن اچانک اس نے بھی اپنے باپ کی طرح عین اس وقت دنیا کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب وہ شہرت کی بلندہوں پر پہنچا ہوا تھا اور اس کی عمر محض 52 سال تھی۔اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔
اس تصویر میں وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ ہیں
