میں نہیں مانتا جیسی شہرۂ آفاق نظموں کے خالق اردو کے عظیم شاعر حبیب جالب 24 مارچ 1928 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور 15 سال کی عمر سے ہی مشقِ سخن شروع کردی تھی۔ وہ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے معاشرتی نا انصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا اور یہی ان کی نظموں کا موضوع بن گیا۔ حبیب جالب نے 1956 میں لاہور میں رہائش اختیار کی، اس دوران انہوں نے ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِ آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور وہ بنیادی طور پر کمیونزم کے حامی تھے۔ انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔ حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے انداز میں سوچتے تھے، وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزومند رہے اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔
حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کو اپنے اشعار میں ڈھال دیا۔ انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کیا، حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ حبيب جالب کا زندگی بھر يہ الميہ رہا کہ وہ تاريکی کو روشنی اور باطل کو حق نہ کہہ سکے۔ ان کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجراء کیا گیا ۔
تاریخی روایات کے عین مطابق حبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 12مارچ 1993 کو 65 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ جالب کے سرکش قلم نے محکوم اور مجبور انسانوں کو ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ دیا، ان کا ہر شعر مظلوم کے دل کی آواز ہے۔ اُن کی نظموں کے پانچ مجموعے: برگِ آوارہ، سرمقتل، عہدِ ستم، ذکر بہتے خون کا اور گوشے میں قفس کے شائع ہوچکے ہیں۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا