کاش ۔۔۔۔ تحریر ! ملک باصر کھوکھر
تعلیم کے زوال کی دردناک تصویر
جماعت نہم کے طلباء کے خراب نتائج محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی عکاسی ہیں جو نسلوں کے مستقبل پر سائے ڈال رہا ہے۔ موبائل فون کا بے دریغ استعمال، ٹی وی ڈراموں اور ٹی وی شوز میں دلچسپی، ویڈیو گیمز کے کھیل اور ہر وقت اس اسکرین کے سامنے بیٹھنا بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں سے دور رہنا، ان کے جسم و دماغ کے توازن کو بھی متاثر کرتا ہے۔
فرسٹریشن اور جذباتی تناؤ کی جڑیں اکثر والدین کی عدم توجہی میں پوشیدہ ہیں۔ وہ بچے جو محبت اور رہنمائی کے محتاج ہیں، اپنی توانائی اور تخلیقی صلاحیتیں کھو دیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس بحران میں اپنی ذمہ داری سے گریز کرتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ نوکری کے تحفظ اور اضافی ذمہ داریوں جیسے مردم شماری، ووٹ کے اندراج، امتحانی ڈیوٹیز اور انتخابات میں مصروف رہنے کی وجہ سے تعلیم و تدریس کو ترجیح نہیں دے پاتے۔
پراٸیویٹ سکولوں کی صورتحال سرکاری سکولوں سے قدرے بہتر ہے ۔ تاہم بہت سے ادارے تنخواہیں بہت کم دیتے ہیں اور بروقت ادا ٸیگی بھی نہیں کرتے، جس کے باعث کم پڑھی لکھی اور غیر تربیت یافتہ ٹیچرز ہی دستیاب ہوتی ہیں جو گھریلو کفالت کے گراں بوجھ کی وجہ سے ہے جا فرسٹریشن کا شکار رہتی ہیں اور اوپر سے تعلیم ،نالج اور تدریسی مہارت میں کمی کے باعث انکی پڑھانے میں دلچسپی کمزور پڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً تعلیمی عمل جذبات اور جذبے سے خالی ہوتا ہے
یہ سب عوامل مل کر ایک زوال پذیر تعلیمی ماحول تخلیق کر رہے ہیں، جس میں نہ صرف علمی معیار گر رہا ہے بلکہ انسانی صلاحیتیں بھی دب رہی ہیں۔ سال کے 365 دنوں میں سے صرف 90 یا 100 دن مؤثر پڑھائی میں گزرتے ہیں، باقی دن بے ربط سرگرمیوں، چھٹیوں اور نظام کے بوجھ اور غیر متعلقہ ڈیوٹیوں میں ضائع ہو جاتے ہیں۔
وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ والدین، اساتذہ اور حکومت سب مل کر ایک مربوط اور مؤثر تعلیمی حکمت عملی اپنائیں۔ بچوں کی تعلیم صرف نصاب کی رٹائی نہیں، بلکہ ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم آج کی نسل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور نہ کر سکے تو کل کے محقق، ڈاکٹر، انجینئر اور رہنما بے بس اور نا مستعد ہوں گے۔
تعلیم کا اصل مقصد صرف امتحان میں نمبر حاصل کرنا نہیں، بلکہ انسانی شخصیت کو مکمل کرنا ہے۔ اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب والدین، اساتذہ اور ادارے سب مل کر بچوں کو وقت، توجہ اور محبت دیں۔






