فقیر نہیں، سفید پوش ہوں
از قلم: عاطف خان جدون
ایک خاموش طبقے کی وہ کہانی جو کبھی خبروں میں نہیں آتی
ممکن ہے آپ روز اُس شخص کو دیکھتے ہوں جو صاف لباس میں، مسکرا کر سلام کرتا ہے۔
وہ دفتر کا ایک عام ملازم، یا محلے کا پرانا شناسا ہو سکتا ہے۔
مگر آپ کو کبھی اندازہ نہ ہو کہ کل رات اس نے بچوں کو صرف پانی پلا کر سُلا دیا … کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، اور وہ مانگنا نہیں جانتا۔
گزشتہ جمعے کو ایک جنازے میں جانا ہوا۔ ایک شخص، صاف ستھرا لباس پہنے، دوسروں کو پانی پلا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اُس کے اپنے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
پوچھا تو آہستہ سے بولا:
“نماز میں ہاتھ اٹھے تو دعا نہیں نکل رہی تھی، دل میں صرف ایک ہی بات تھی … بچوں کے لیے دودھ کہاں سے آئے گا؟”
پھر وہ اُٹھا، اور صف میں جا کر کھڑا ہو گیا۔
ایسا لگتا ہے جیسے سفید پوش طبقہ روتا بھی ہے، تو خاموشی سے … تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔
بس یہی ہے سفید پوشی۔
نہ وہ غربت کی لکیر سے نیچے آتے ہیں، نہ آگے بڑھنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔
نہ ان کا نام کسی امدادی فہرست میں ہوتا ہے، نہ ان کے لیے کوئی دروازہ کھلتا ہے۔
وہ قطار میں کھڑے نہیں ہوتے، درخواست نہیں دیتے، اور سب سے بڑھ کر … وہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔
پاکستان میں 40.5 فیصد آبادی عالمی معیار کے مطابق غربت میں شمار ہوتی ہے، مگر سفید پوش طبقہ اس گنتی میں نہیں آتا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو صرف جیتے ہیں — خاموشی سے، بوجھ لیے، بغیر آواز کیے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ 2021 کے مطابق، ملک میں لاکھوں افراد “working poor” ہیں — وہ جو کام کرتے ہیں، مگر زندگی کی بنیادی سہولتیں پوری نہیں کر سکتے۔
یہی سفید پوش ہیں۔
نہ احتجاج کرتے ہیں، نہ اشتہار۔
بس جیتے ہیں، اپنی خودداری کے ساتھ۔
ہم نے ہمیشہ ان ہاتھوں کو دیکھا جو مدد مانگتے ہیں، مگر ان ہاتھوں کو بھلا دیا جو کپکپاتے ہوئے بھی صبر سے بند رہتے ہیں۔
سفید پوش طبقہ مانگتا نہیں، اسی لیے فہرستوں سے غائب ہے۔
اگر معاشرہ واقعی انسانیت پر قائم ہے، تو ہمیں ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو اپنے حق کے لیے شور نہیں مچاتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نظام کو ایسا بنائیں جو صرف آواز پر نہیں، خاموشی پر بھی توجہ دے … تاکہ خودداری کسی کی بھوک نہ بنے، اور عزت نفس کسی کے بچوں کا دشمن نہ ہو۔
درحقیقت، سفید پوش لوگ معاشرے کا اصل ستون ہیں۔ وہ نظام پر بوجھ نہیں، بلکہ وہ سہارا ہیں جس پر یہ سارا نظام ٹکا ہے۔
مگر اگر وہ سہارا ٹوٹنے لگے، تو عمارت سلامت نہیں رہتی۔
سفید پوش کبھی مانگتا نہیں
مگر اگر ایک دن اس نے سوال کرنا شروع کر دیا،
تو یہ معاشرہ اس کی خاموشی کو ترسے گا۔
مگر شاید تب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔






