بوڑھے والدین… جیتے جاگتے فراموش کردہ قصے
ایک وقت تھا جب ماں باپ کے چہرے پر آئی ایک بھی شکن دل ہلا دیتی تھی۔ اُن کے قدموں کی چاپ سے گھر میں برکت محسوس ہوتی تھی۔ اُن کی دعائیں زندگی کے طوفانوں میں ڈھال بن جاتی تھیں۔
مگر آج، وہی ماں باپ، جنہوں نے ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، جنہوں نے ہمارے لیے اپنی خوشیاں قربان کیں، اب خاموشی کے سائے میں جی رہے ہیں… جیسے کوئی پرانا قصہ، جو کبھی سنایا جاتا تھا مگر اب یاد رکھنے کی زحمت بھی کوئی نہیں کرتا۔
بوڑھے ماں باپ صرف بوڑھے جسم نہیں ہوتے۔ وہ تاریخ ہوتے ہیں، تجربے ہوتے ہیں، دعائیں ہوتے ہیں، وہ ایک مکمل زندگی کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر جو جھریاں ہیں، وہ وقت کی لکیر نہیں… وہ سالوں کی قربانیوں کا حساب ہیں، جو انہوں نے ہمارے آرام، تعلیم اور خوشی کے لیے دیے۔
اسلام میں والدین کا مقام محض رشتہ داری تک محدود نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جنت ماں کے قدموں تلے ہے” (سنن نسائی، 3104)۔ یہ محاورہ نہیں… ایک ابدی حقیقت ہے۔ ماں کی رضا، جنت کی کنجی ہے۔ جو شخص ماں کو راضی کر لیتا ہے، وہ گویا اپنے لیے جنت کا دروازہ کھول لیتا ہے۔
ماں کی خدمت کی ایک بے مثال مثال حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ملتی ہے۔
وہ یمن میں رہتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی زیارت کے شوقین تھے، مگر اُن کی بوڑھی ماں بیمار تھیں۔ انہوں نے مدینہ آ کر نبی ﷺ کی ملاقات کا خواب دل میں دبائے رکھا، لیکن ماں کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ یہ فیصلہ دنیا کے لحاظ سے چھوٹا ہو سکتا ہے، مگر رب کے ہاں بہت بلند تھا۔
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا:
“یمن سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہوگا۔ اس کی ایک ماں ہے، اور وہ اس کا خدمت گزار ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کرتا ہے۔ تم میں سے جو اسے پائے، اس سے دعا کی درخواست کرے۔” (صحیح مسلم، حدیث 2542)
حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت علیؓ نے ان کی تلاش کی، اور جب وہ ملے تو ان سے دعا کروائی۔ مگر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے اس مقام کو شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ وہ گمنامی میں رہ کر خدمت کرتے رہے۔ نہ وہ ظاہری رتبے کے طلبگار تھے، نہ کسی خطاب یا منصب کے خواہش مند — ان کی عظمت، خدمت میں تھی۔ یہی وہ مثال ہے جو اختلاف سے پاک ہے، اور ہر دل پر اثر کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ ایک خاموش المیہ بن چکا ہے کہ بوڑھے والدین کو اُس مقام پر لا کھڑا کیا جاتا ہے جہاں نہ وہ کچھ مانگ سکتے ہیں، نہ کسی کو شکایت کر سکتے ہیں۔ وہ صرف برداشت کرتے ہیں… اولاد کی بےرخی، وقت کی تنگی، اور محبت کی کمی۔
بڑھاپے میں انسان کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہے ساتھ۔ نہ کوئی مہنگا تحفہ، نہ لمبی باتیں… صرف موجودگی۔
ایک ماں جو ساری زندگی گھر سنوارتی رہی، آج اسی گھر میں صرف ایک کمرے تک محدود ہو چکی ہے۔ وہ باپ جو کبھی آندھی طوفان میں دفتر جاتا تھا تاکہ بچوں کی فیس ادا کر سکے، آج دوا لینے کے لیے کسی کا انتظار کرتا ہے۔
تنہائی صرف کمرے میں اکیلا ہونا نہیں… تنہائی وہ ہوتی ہے جب آواز دینے پر کوئی جواب نہ دے۔ جب بات کرنے کو دل ہو، لیکن سننے والا نہ ہو۔ جب بیٹا گھر میں ہو، مگر مصروف ہو… جب بیٹی قریب ہو، مگر دل دور ہو۔
اور الحمدللہ، کچھ لوگ خوش نصیب بھی ہیں۔
اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے حالات کے باوجود، کچھ گھروں میں اب بھی والدین کو وہ عزت، وہ وقت، وہ محبت مل رہی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔
میرے اپنے والدین… الحمدللہ… ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں۔ وہ آج بھی حیات ہیں، صحت مند ہیں، اور خوش ہیں۔ یہ ان کا صبر ہے، ان کی تربیت ہے، ان کی قربانی ہے… کہ آج میں جتنا کچھ ہوں، جو کچھ سمجھ پایا، وہ سب ان کے طفیل ہے۔
میری ماں نے صرف میرے جسم کی پرورش نہیں کی… بلکہ میری روح کو تھام کر رکھا۔ میرے والد نے زندگی کے تمام آرام میرے کل پر قربان کیے… لیکن کبھی بھی احسان نہ جتایا۔ کبھی ہم بھوکے سوئے، کبھی انہوں نے خواب ادھورے چھوڑے… مگر ہماری آنکھوں میں چمک کم نہ ہونے دی۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے ہر لفظ میں ان دونوں کا عکس ہے… جن کے بغیر میرا وجود تو ہوتا، مگر پہچان نہ ہوتی۔
ہم اکثر کہتے ہیں: “امی ابو تو ٹھیک ہیں نا؟” یہ سوال کبھی اُن سے خود جا کے نہیں کرتے۔ یہ فون پر، وہ بھی شاید ہفتوں بعد، رسمی انداز میں کیا جاتا ہے۔
حالانکہ ماں باپ کو “ٹھیک” نہیں رہنا ہوتا… اُنہیں خوش رہنے کے لیے اولاد کا وقت، توجہ اور احساس چاہیے ہوتا ہے۔
بہت سے گھروں میں بزرگ ماں باپ کو ایک الگ کمرے میں رکھا جاتا ہے… بظاہر آرام کے لیے، لیکن اصل میں اُنہیں “disturbance” نہ بننے دیا جائے۔
وہ کمرہ جو پہلے کبھی سب کا مرکز ہوتا تھا، اب جیسے کسی گودام کی طرح ہو جاتا ہے۔ چیزیں جمع ہوتی ہیں، آوازیں بند ہو جاتی ہیں… اور صرف دیواریں سنتی ہیں۔
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کے قدموں تلے جنت تھی، وہ اب بےآواز ہو چکے ہیں؟ وہ مانگتے کچھ نہیں… مگر دل ہی دل میں ہر دن اولاد کی توجہ کو ترستے ہیں۔
بوڑھے ماں باپ کے ذہن میں زندگی کے ہزاروں منظر چلتے رہتے ہیں… ہمارا پہلا قدم، پہلا اسکول کا دن، پہلی کامیابی، پہلی ناکامی… ہر چیز انہیں یاد ہوتی ہے۔
لیکن اُن سے کوئی پوچھتا نہیں۔ نہ اُن سے کوئی یادیں بانٹتا ہے، نہ اُن کی کہانیاں سنتا ہے… اُن کی زندگی گویا ایک بند کتاب بن جاتی ہے، جسے کوئی پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔
حالانکہ اُن کے پاس وقت ہوتا ہے، سنانے کو باتیں ہوتی ہیں، دعائیں دینے کو دل ہوتا ہے… بس اُنہیں چاہیے ہوتا ہے ایک سامع، ایک ساتھ بیٹھنے والا، ایک وہ چہرہ جسے دیکھ کر دل مطمئن ہو جائے۔
ہم اپنے آپ کو بہت مصروف سمجھتے ہیں… “کام بہت ہے”، “ٹائم نہیں ملتا”، “اگلی بار ضرور آؤں گا”… یہ سب بہانے ہم اتنی بار دہرا چکے ہیں کہ خود بھی یقین آ جاتا ہے۔
لیکن وقت کبھی نہیں رکتا۔ جو ماں باپ آج انتظار کر رہے ہیں… کل شاید ہوں ہی نہ۔
کل جب ہم خالی کمرے میں اُن کی تصویر کو دیکھیں گے، تب وہ فون کال یاد آئے گی جو نہ کی… وہ ملاقات جو ٹالی… وہ گلے جو نہیں لگایا… وہ وقت جو اُنہیں دیا جا سکتا تھا مگر ہم نے خود پر خرچ کر لیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں، “ہم اُن کا خرچ تو اٹھا رہے ہیں، دوا وقت پر پہنچا دیتے ہیں، نرس رکھ لی ہے، اور کیا کریں؟”
تو سوال یہ ہے کہ ماں باپ نے ہمیں صرف خرچ پر پالا تھا؟ کیا ماں نے صرف کھانا دے دیا تھا، یا ساتھ میں محبت بھی دی تھی؟ کیا باپ نے صرف فیس دی تھی، یا رات کو جاگ جاگ کر ہمارے امتحان کے لیے دعا بھی مانگی تھی؟
محبت کو پیسوں سے تولنے کا دور شاید آ چکا ہے… لیکن اصل رشتہ کبھی مالی مدد سے مکمل نہیں ہوتا۔
اگر آپ کے ماں باپ زندہ ہیں… تو یہ تحفہ ہے۔
اور اگر وہ زندہ اور خوش ہیں، تو یہ نہ صرف نعمت ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ یونہی خوش رہیں… یونہی عزت پائیں… اور کبھی یہ محسوس نہ کریں کہ اُن کی کہانی ختم ہو چکی ہے۔
یہ تحریر کسی افسوس کا اختتام نہیں۔ یہ ایک شروعات ہے… شاید اپنے دل کے دروازے کھولنے کی، شاید اُن بند لمحوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی جنہیں ہم نے زندگی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔
بوڑھے والدین کبھی بوجھ نہیں ہوتے… وہ برکت ہوتے ہیں… وہ سایہ ہوتے ہیں… وہ وہ آئینہ ہوتے ہیں، جس میں ہم اپنا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔
تو دیکھ لیجیے… کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ چہرہ دھندلا ہو جائے… اور صرف ایک جملہ رہ جائے..
“کاش ایک بار گلے لگا لیتا…”
اور میں خود یہ تحریر ان عظیم والدین کے نام کرتا ہوں…
جنہوں نے مجھے لفظوں کا شعور دیا…
اور یہ احساس دیا کہ ماں باپ صرف یاد نہیں کیے جاتے…
نبھائے جاتے ہیں۔






