*ترقی کا شور، تدبیر کی خاموشی*
تحریر: سید عاصم افضل
ڈپٹی چیف ایڈیٹر رِٹ نیوز
جب ترقی کا تصور تدبیر سے عاری ہو، تو سہولت بھی اذیت بن جاتی ہے۔
وہ شام منڈی بہاؤالدین کے باسیوں کے لیے کسی عید کے سماں سے کم نہ تھی۔
شہر کے چوک روشنیوں سے جگمگا رہے تھے، گلیوں میں چراغاں تھا۔
اور اہلِ شہر کے لبوں پر ایک ہی جملہ تھا
“منڈی بہاؤالدین میں فوڈ اسٹریٹ کا افتتاح ہو گیا!”
یوں محسوس ہوا جیسے برسوں بعد اس مٹی کو کوئی خوشبو نصیب ہوئی ہو۔
نوجوان دوستوں نے منصوبے بنائے،
خاندانوں نے سیر کا ارادہ کیا،
اور سبھی دل میں یہ اُمنگ لیے نکلے کہ دیکھیں یہ نیا خواب کتنی حقیقت لیے ہوئے ہے۔
میں بھی چند رفقا کے ساتھ اسی جوش میں فوڈ اسٹریٹ کی سمت روانہ ہوا۔
مگر جوں جوں قریب پہنچا، احساس ہوا کہ یہ “فوڈ اسٹریٹ” نہیں،
بلکہ ٹریفک جام کی نئی تجربہ گاہ ہے۔
ہر جانب گاڑیوں کی قطاریں، موٹر سائیکلوں کی بھرمار،
ہارنوں کا شور اور شہریوں کے چہروں پر مایوسی کی لکیریں ۔
جیسے خوشی کا ذائقہ سڑک کے دھوئیں میں تحلیل ہو گیا ہو۔
پہلا چکر لگایا ۔۔۔پارکنگ ندارد۔
دوسرا چکر ۔۔۔سڑک مزید تنگ۔
تیسرا چکر ۔۔۔پولیس کے سپاہی مسکراتے ہوئے سامنے۔
اور پھر وہی تکراری جملہ، جس نے ساری خوشی ملیا میٹ کر دی: “صاحب! غلط پارکنگ ہے، فائن ہوگا!”
دل چاہا مؤدبانہ عرض کروں: “جناب! جہاں پارکنگ ہے ہی نہیں، وہاں غلطی کہاں کی؟”
مگر ان کے چہرے پر وہی روایتی اطمینان اور سرکاری سنگ دلی تھی ۔
گویا شہری سہولت سے زیادہ انہیں جرمانے کے اعداد و شمار سے دلچسپی ہو۔
یہ واقعہ کسی ایک شام یا ایک گلی کا نہیں،
بلکہ ہمارے پورے نظام کی ذہنی ساخت کا مظہر ہے۔
ہم ترقی کے دعوے کرتے ہیں مگر تدبیر بھول جاتے ہیں۔
منصوبے بناتے ہیں مگر منصوبہ بندی کو گناہ سمجھ لیتے ہیں۔
منڈی بہاؤالدین کی فوڈ اسٹریٹ بلا شبہ دیدہ زیب منصوبہ ہے،
لیکن اس کی سب سے بڑی خامی وہی ہے جو اکثر ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی ہوتی ہے ۔
جہاں عوام کو بلایا گیا، وہاں ان کے لیے جگہ نہیں چھوڑی گئی۔
ایک شہر جس کی گلیاں تنگ اور سڑکیں پارکنگ سے محروم ہوں۔
وہاں ایک نئی تفریح گاہ کھول دینا دانش مندی نہیں، محض نمائشی شوق ہے۔
پھر رہی سہی کسر ہمارے محترم “خان صاحب نامی ” ٹریفک پولیس افسر نے پوری کر دی۔
ان کے نزدیک نظم و ضبط کا مفہوم صرف فائن کی رسیدوں کی تعداد میں پوشیدہ ہے۔
نہ کوئی واضح باؤنڈری، نہ رہنمائی کے بورڈ، نہ شہری سہولت کا احساس۔
بس جہاں کسی نے گاڑی یا موٹر سائیکل کھڑی کی، فوراً کارروائی۔
خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کے وہ اس قدر “شیدائی” ہیں کہ
جرمانہ ان پر ایسا عائد کرتے ہیں گویا خطا نہیں، کوئی قومی جرم سرزد ہوا ہو۔
شاید ان کے نزدیک قانون کی خوبصورتی اس کی نرمی میں نہیں،
بلکہ اس کی بے رحمی میں پنہاں ہے۔ میری ان آنکھوں نے ان مسکین مزدوروں کو روتے دیکھا ہے کہ میری تو آج دیہاڑ بھی نہیں لگی لیکن فائن دو دنوں کی اجرت کے برابر فرض عین سمجھ کر ٹھوک دیا گیا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ جب حکومت کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے،
تو کیا اس کا مقصد شہریوں کو سہولت دینا ہوتا ہے یا نئی آزمائشیں تراشنا؟
کیا فوڈ اسٹریٹ کا مفہوم خوش ذائقہ کھانوں کے ساتھ تلخ تجربوں کی چاشنی بھی ہے؟
ترقی محض عمارتوں اور روشنیوں کا نام نہیں “بلکہ زندگی کے نظم اور انسان کے احترام کا دوسرا نام ہے“۔
اگر شہری اپنی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائیں،
تو وہ منصوبہ تفریح نہیں، اذیت گاہ بن جاتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ سنجیدگی سے
فوڈ اسٹریٹ کے گرد ایک منظم پارکنگ زون قائم کرے۔
ٹریفک پلان واضح ہو، سائن بورڈز نمایاں ہوں،
اور پولیس کو صرف فائن کے بجائے رہنمائی اور سہولت رسانی کا کردار سونپا جائے۔
اگر ہم نے شہری زندگی کو محض خانہ پُری سمجھا،
تو یقین کیجیے، کل پاکستان کی ہر فوڈ اسٹریٹ
“فائن اسٹریٹ” کہلانے کی مستحق ہوگی۔
ترقی کا اصل حسن آسانی میں ہے،
نہ کہ عوامی آزمائش میں۔
شہر تب ہی ترقی کرتے ہیں جب ان کے منصوبے
عوام کی خدمت کے لیے ہوں،
نہ کہ ان کے صبر کا امتحان لینے کے لیے۔






