0

پھاٹک جو وقت کی راہ میں کھڑا ہے کالم ۔سید عاصم افضل

پھاٹک جو وقت کی راہ میں کھڑا ہے
تحریر: سید عاصم افضل
ڈپٹی چیف ایڈیٹر، رِٹ نیوز
کہتے ہیں وقت کبھی رکتا نہیں، مگر کچھ جگہیں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں لمحے جیسے تھم جاتے ہیں۔ منڈی بہاؤالدین کا مین پھاٹک بھی انہی جگہوں میں سے ایک ہے — جہاں ترقی کا پہیہ آج تک ریل کی پٹڑی کے شور میں گم ہے۔
اسےکہانی کہوں یا منظر کی زباں !!!
ایک صبح میں نے دیکھا، اسکول سے واپس جانے والی ایک بچی اپنی ماں کا ہاتھ تھامے پھاٹک کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس دن سورج پوری آب و تاب میں تھا، دھوپ بےرحم، اور ریل کے آنے کی سیٹی فضا میں گونج رہی تھی۔ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے۔ سب ایک دوسرے سے الجھے کھڑے تھے۔ ریل گزری، دھول اڑی، شور تھما، اور پھر وہ ماں بیٹی اپنے راستے پر چلی گئیں۔ مگر میں آج تک وہ منظر بھلا نہیں سکا۔ شاید اس لیے کہ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اسی پھاٹک کے قیدی ہیں، جو دہائیوں سے ترقی کے دروازے پر بند پڑا ہے۔
جہاں وعدوں کے دیے جلتے ہیں، وہاں ہمیشہ عمل کا اندھیرا چھایا رہتا ہے۔
یہ مسئلہ آج کا نہیں۔ میں جب طالبِ علم تھا تب بھی سنتا تھا کہ یہاں اوور ہیڈ برج بننے والا ہے۔ کچھ برس بعد خبر ملی کہ نہیں، انڈر پاس کی منظوری ہو گئی ہے۔ لیکن دہائیاں بییت گئیں، حکومتیں بدل گئیں، وعدے دُہراتے رہے، اور منڈی بہاؤالدین کا پھاٹک آج بھی وہی ہے۔ رش، شور، ہارنوں کی چیخیں اور گاڑیوں کی بے ہنگم قطاریں۔
دنیا چاند پر بستیاں بسا رہی ہے، خودکار گاڑیاں بنا رہی ہے، شہروں میں جدید انفراسٹرکچر ترقی کی علامت بن چکا ہے، مگر افسوس کہ ہمارا شہر آج بھی ایک ایسے دروازے پر رکا ہوا ہے جہاں وقت رک سا گیا ہے۔
سیاست کے سائے میں دبی حقیقتوں سے اگر پردہ اٹھ جاۓ تو کتنے لوگ وضاحتوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ منڈی بہاؤالدین کے لوگ صبر کے پیکر بن چکے ہیں۔ ہر انتخاب میں وہی وعدے، وہی تسلیاں، اور ہر تقریر کے آخر میں “جلد خوشخبری” کی گردان۔
محترمہ حمیدہ وحیدالدین عرصہ دراز سے اس شہر کی سیاست کا مرکزی کردار ہیں۔ لیکن عوامی فلاح کے میدان میں ان کے وعدوں کی تعبیر تاحال پوشیدہ کہیں یا گمشدہ ۔
پھاٹک کی بند پٹڑیوں کے پیچھے صرف گاڑیاں نہیں رُکتیں، خواب رُکتے ہیں۔ کوئی مریض ایمبولینس میں وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پاتا، کوئی مزدور کام پر دیری سے پہنچتا ہے، کوئی طالب علم اپنے کمرہ امتحان میں تاخیر سے پہنچنے کا ذمہ دار اسی لوہے کے دروازے کو سمجھتا ہے۔ اور ہم سب خاموش تماشائی بنے اس اذیت کو روز سہتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ کب بنے گا، سوال یہ ہے کہ کب جاگیں گے؟
کیا یہ شہر کسی جرم کی سزا بھگت رہا ہے؟ یا ہم واقعی اپنی بے حسی کے اسیر ہیں؟ اہلِ اقتدار کے لیے یہ محض ایک ترقیاتی منصوبہ ہو سکتا ہے، مگر عوام کے لیے یہ روزمرہ اذیت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس شہر کے نمائندے وعدوں کے خالی لفافے بند کریں اور عمل کا آغاز کریں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے، مگر منڈی بہاؤالدین کا مین پھاٹک اب بھی وقت کی راہ میں رکاوٹ کھڑا ہے۔ شاید ایک دن کوئی آئے جو وعدے نہ کرے، عمل کرے۔ وہ دن جب شہری ریل کے گزرنے کا نہیں، ترقی کے آنے کا انتظار کریں۔ تب شاید اس پھاٹک کی زنجیر ٹوٹے، اور منڈی بہاؤالدین کا نام حقیقی معنوں میں ترقی کی پٹڑی پر آ جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں